Skip to main content

Posts

مقصود کائنات

 مقصود کائنات کوبحیثیت انسان مختصر احاطۂ قلم کرنے کی جو کوشش کی ہے،وہ آپ کی زیر نظر ہے۔ اللہ تعالی کی صفات پر غور کریں تو اس کائنات کو بنانے کا مقصد آپ بخوبی سمجھ جائیں گے۔ جب کچھ نہ تھا،صرف اللہ ہی اللہ تھا اور اسی حالت میں رہتے ہوۓ اللہ تعالی اعلان فرماتا کہو میں ایک  ہوں تو کون تسلیم کرتا اور کون انکار کرتا۔تسلیم کرنے کے لۓ بھی تو کوئ نہ کوئ ہونا چاہیے۔پھر اللہ فرماتا بادشاہت صرف میری ہے تو اس کے لۓ کوئ حد بندی اور علاقہ تو چاہیے تھا،اسی علاقے اور حد بندی کا نام کائنات ہے۔۔ پھر اللہ نے اعلان فرمانا چاہا کہ میں عبادت کے لائق ہوں۔یہ فرمان کہاں کہاں لاگو ہو گا جہاں جہاں اللہ کی حکمرانی ہے اللی کی حکمرانی تو اس کی بنائ ہوئ ساری کائنات پر ہے۔پھر اس کائنات میں بھی تو کوئ عقل و شعور رکھنے والا اللہ کے فرمان کو سمجھنے والا،کوئ زبان والا بول کر اور تسلیم کر کے عبادت کرنے والا بھی تو کوئ چاہیے تھا اس کو پیدا کیا گیا اور وہ اقرار کرنے والی خوش قسمت مخلوق حضرت انسان یعنی آپ ، میں اور تمام انسان ہیں۔کائنات لا محدود لیکن مختلف قسم کی ہے۔اقرار وتسلیم اور عبادت کرنے والے بھی ایک جیسے نہیں ہیں وہ بھ

Body and soul

The Almighty has made man by combining body and soul.  That is, man is a mixture of two things: body and soul.  In fact, man is the name of the soul, which is the thing of the realm of heaven (ie the place of angels or spirits), which is brought from above, the body is its envelope or cover.  Which is made from here.  The real man is the soul.  No body.  It is the rule that the Almighty sends the delicate, that is, the delicate and soft thing, wrapped in something strong so that the delicate may be protected.  It is delicate and delicate, the skin on top is hard for protection, similarly pomegranate or any other grain we have, etc., all are sent in a wrapper.  When they are together, the name is one and when they are separated, the name is different.  As the original essence is extracted from the almonds, the remaining shells will remain, they will not be called almonds.  In the same way the envelope of the soul is the body.  When the body and the soul meet, it is called a human being.

Search

 The life style of the Son of Man, the circumstances, events and attitudes that take place in it show that the purpose of man's life is only to search. Search is an ocean.  Till he is immersed in it, he ends up searching for the things which are already a part of this world.  Things cannot be taken to another world, so what is the purpose of this search for the things that are lost to man after he dies?  Why forget things that do not exist in the next world. And which we can take with us ... A mathematical question is synonymous and non-synonymous which children can solve with the principle of mathematics.  But this question has not been solved by anyone except some adults till date. In fact, there are two answers to this, one is solved by the children and the other is the answer we have never searched for.  That's how we all meet each other  You are busy looking for the same things. O human being, never be different from others and look for what you get. You will find somethin

تلاش

 ابن آدم کی طرز زندگی،اس میں رونما ہونے والے  حالات و واقعات اور رویوں سے صرف یہی پتہ چلتا ہے کہ انسان کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف تلاش کرنا ہے۔تلاش ایک سمندر ہےپیدا ہوتے ہی انسان اس میں گر جاتا ہے اور آخری ہچکی تک اس میں غرق رہ کر ختم ہو جاتا ہے۔انہی چیزوں کو تلاش کرتا ہے جو پہلے ہی سے اس دنیا کا حصہ ہیں۔انسان صرف تلاش کے نتیجے میں اسی زمین پر ان چیزوں کی صرف جگہ بدلتا ہے اور اپنی تلاش کی ہوئ کسی بھی چیز کو کسی اور جہان میں نہی لے جا سکتا،تو پھر اس تلاش کا مقصد کیا ہے جو چیز انسان کے مر جانے سے اس کے لۓ ختم ہو جاتی ہے وہ چیزیں جو پہلے سے ہی اس دنیا میں موجود ہیں ان کے حصول کے لۓ انسان ان چیزوں کو کیوں بھول جاتا ہے جو اگلی دنیا میں موجود نہی ہیں۔اور جن کو ہم اپنے ساتھ بھی لے جا سکتے ہیں۔۔۔ریاضی کا ایک سوال مترادف اور غیر مترادف جس کو بچے تو ریاضی کے اصول سے حل کر لیتے ہیں،لیکن صرف کچھ بڑوں کے علاوہ آج تک کسی سے یہ سوال حل نہی ہو سکا۔اصل میں اس کے دو جواب ہیں،ایک تو بچے حل کر کے دکھاتے ہیں اور دوسرا جواب ہم نے کبھی تلاش ہی نہی کیا۔صرف اور صرف اس مترادف کی طرح ہم سب کے سب ایک دوسرے سے م

Sound and word

 Sound is a word to be heard and a noise to be heard is a wonderful thing because its presence is proof of being alive. Otherwise even stones are silent. Then the soil which provides sustenance to all is considered lifeless. It sustains the life of animals by giving them food. Considering the soil, the behavior and attitude towards us is very good. She loves her mother even more. She also gives food and hides it in her lap after death. But because of the lack of words and sound it is called lifeless ie dead. You may be thinking that moving is a sign of life..but I would say that even the wind moves but it is lifeless. Take itBut lifeless. Plants breathe and take food, but they are treated like dead bodies. Animals are considered to be fully alive because of their speech. They understand and express the same attitude of love and anger, but never join us in our gatherings, celebrations, occasions of sorrow and joy. Do you know why Because they have soul and voice and behavior but no word

لفظ اور آواز

 آواز کہنے کو تو ایک لفظ ہے اور سننے کو ایک شورلیکن ہے بڑے کمال کی چیزکیونکہ اس کی موجودگی زندہ ہونے کا ثبوت ہے  ورنہ پتھر بھی تو بے آواز ہیں نہ کسی کی سنتے ہیں اور نہ کسی کو کچھ سناتے ہیں۔ تبھی تو بے جان سمجھے جاتے ہیں وہ مٹی جو سب کا رزق پیدا کرتی ہے۔جانداروں کو خوراک دے کر ان کی زندگی کو قائم رکھتی ہے۔ غور کیا جاۓ تو مٹی کا سلوک اور رویہ ہمارے ساتھ بہت اچھا ہے۔ ماں سے بھی زیادہ محبت کرتی ہے۔ کھانا بھی دیتی ہے اور مرنے کے بعد اپنی گود میں بھی چھپا لیتی۔ لیکن الفاظ اور آواز نہ ہونے کی وجہ سے بے جان یعنی مردہ کہلاتی ہے۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ حرکت کرنا تو زندگی کی علامت ہے۔۔مگر میں کہوں گا ہوا بھی تو حرکت کرتی ہے لیکن بے جان ہے۔پودے سانس اور خوراک لیتے ہیں،لیکن ان کے ساتھ مردہ اجسام کی کی طرح ہی برتاؤ کیا جاتا ہے۔حیوانات کو بولنے کی وجہ سے پوری طرح جاندار سمجھا جاتا ہے۔ وہ پیار اور غصیلے رویے کو سمجھتے بھی ہیں اور اسی طرح کے رویے کا اظہار بھی کرتے ہیں،لیکن کبھی بھی ہماری محفلوں،تقریبات،غمی اور خوشی کے موقعوں پر ہمارے ساتھ شامل نہی ہوتے۔ جانتے ہیں کیوں ؟ کیونکہ ان کے پاس جان اور آواز اور ر

جہیز کی شروعات

جہیز کا لفظی مطلب تو جو ہو گا وہی ریے گا۔لیکن ہمارے ہاں اس کا مطلب صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے بیٹیوں کی شادی پر دیا جانے والا سازوسامان۔ہندو اس کا مطلب ایسا سمجھ لیں تو کوئ مزائقہ نہیں ہے کیونکہ وہ بیٹیوں کو وراثتی حصہ دینا نہیں چاہتے اور اس کے بدلےکچھ چیزیں دے کر جان چھڑائ کرتے ہیں۔ جیسے نماز اور اسی طرح دوسرے احکامات کا حکم ہمیں اللہ نے دیا ہے اسی طرح وراثت میں بیٹی کا حصہ بھی اللہ نے مقرر کیا ہے۔ ہم  میں سے کسی ایک نے اس سے بچنے کے لۓ بیٹی کو کچھ چیزیں دے کر اور ساری عمر دینے کا وعدہ کر کے زمین یا دوسری جائداد کے بیان بیٹے کے حق میں دلوا لۓ۔جہیز کی اصل کہانی یہی سے شروع ہوتی ہے ۔یہ نافرمانی بالکل اسی قوم کی طرح اللہ سے چالاکی ہے ۔جن کو ہفتے والے دن مچھلی پکڑنے سے روکا گیا۔ چہیز دے کر وراثت  دینے سے بھاگنے کا دھوکا ہم صرف اللہ کو نہی دے رہے بلکہ ان تمام غریب لوگوں کو بھی دے رہے ہیں جن کے پاس وراثت نام کی کوئ چیز نہی۔لیکن ان کو پھر بھی جہیز دینا پڑتا ہے۔مجھے سمجھ نہی آتی کوئ ہے جو سمجھا دے۔ اصغر علی