ابن آدم کی طرز زندگی،اس میں رونما ہونے والے حالات و واقعات اور رویوں سے صرف یہی پتہ چلتا ہے کہ انسان کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف تلاش کرنا ہے۔تلاش ایک سمندر ہےپیدا ہوتے ہی انسان اس میں گر جاتا ہے اور آخری ہچکی تک اس میں غرق رہ کر ختم ہو جاتا ہے۔انہی چیزوں کو تلاش کرتا ہے جو پہلے ہی سے اس دنیا کا حصہ ہیں۔انسان صرف تلاش کے نتیجے میں اسی زمین پر ان چیزوں کی صرف جگہ بدلتا ہے اور اپنی تلاش کی ہوئ کسی بھی چیز کو کسی اور جہان میں نہی لے جا سکتا،تو پھر اس تلاش کا مقصد کیا ہے جو چیز انسان کے مر جانے سے اس کے لۓ ختم ہو جاتی ہے وہ چیزیں جو پہلے سے ہی اس دنیا میں موجود ہیں ان کے حصول کے لۓ انسان ان چیزوں کو کیوں بھول جاتا ہے جو اگلی دنیا میں موجود نہی ہیں۔اور جن کو ہم اپنے ساتھ بھی لے جا سکتے ہیں۔۔۔ریاضی کا ایک سوال مترادف اور غیر مترادف جس کو بچے تو ریاضی کے اصول سے حل کر لیتے ہیں،لیکن صرف کچھ بڑوں کے علاوہ آج تک کسی سے یہ سوال حل نہی ہو سکا۔اصل میں اس کے دو جواب ہیں،ایک تو بچے حل کر کے دکھاتے ہیں اور دوسرا جواب ہم نے کبھی تلاش ہی نہی کیا۔صرف اور صرف اس مترادف کی طرح ہم سب کے سب ایک دوسرے سے ملتی جلتی ایک جیسی چیزوں کی تلاش میں مصروف ہیں۔اے انسان دوسروں سے ہٹ کر کبھی غیر مترادف ہو کر تلاش کر کے دیکھ تجھے کیا ملتا ہے۔تجھے کچھ نیا ملے گا۔جو سب سے الگ ہو گا۔ جس میں یہ صلاحیت ہے کہ تیرے مرنے پر تیری روح کے ساتھ اگلی دنیا کی جانب سفر کر سکے گا اور جس کو تیری روح مزے سے کھا سکے گی۔یہ وہ چیز ہے جس کی تلاش میں تجھے کسی کو دھکے نہیں مارنے پڑیں گے۔کسی کا حق نہیں چھیننا پڑے گا،نہ کسی کا دل دکھانا پڑے گا اور نہ کسی کے دل سے دور جانا پڑے گا نہ ہی کوئ قتل نہ لڑائ نہ جھگڑا نہ سازش اور نہ ہیی کوئ فساد۔تیری مطلوبہ تلاش کے لۓ اوپر والے دھوکے کے مواد سے بنے تمام پاپڑ تجھے بیلنے پڑتے ہیں اور جن کو بیلتے بیلتے ایک دن تیری زندگی کی ڈور اسی بیلنے میں آ کر زرہ زرہ ہو کر ٹوٹ جاتی ہے ۔اپنی تلاش میں چیزوں کو بدل کر ضرور دیکھنا سکون بھی ملے گا دوڑنا بھی کم پڑے گا اور رب بھی ملے گا۔
تحریر از
اصغر علی
حافظ آباد،لویرے کلاں
Comments