اور ہوتا ہے۔دیکھنے والا کوئ اور ہوتا ہے اورا اس تمام سیٹ اپ کو ترتیب دینے والا کوئ اور ہوتا ہے۔اس فرضی اکھاڑے کے تمام کھلاڑی تو اصلی ہوتے ہیں لیکن انکی بیان کی جانے والی کہانی مفروضے پر مبنی ہوتی ہے۔مقصد صرف یہ ہے کہ کہانی سننے والوں کو خوش کر کے پیسہ کمایا جاۓ۔مزکورہ بالا فلمی اکھاڑے سے مشابہت رکھتا ہوا ایک اور اکھاڑہ ہے جو آج کل سیاسی اکھاڑے کے نام سے معروف ہے۔سیاسی اکھاڑہ شعبدہ بازی کی قریب ترین شکل ہے۔شعبدہ بازی میں ہاتھوں کا زیادہ استعمال ہوتا ہے جس سے لوگوں کا نقصان تو نہیں ہوتا کیونکہ وہ سب فرضی ہوتا ہے۔ بس ان کو رومال سے کبوتر بنا کر خوش کر کے عاجزی کے ساتھ تھوڑے بہت معاوضے کی درخواست کی جاتی ہے لیکن سیاسی شعبدہ بازی میں زبان کا فرضی استعمال کر کے لوگوں کو امید سے نا امیدی بنانے کا تماشہ دکھا کر خوش کیا جاتا ہے،اور اس تماشے کا معاوضہ پوری بدمعاشی کے ساتھ پانچ سال تک ہر خاص و عام کا خون چوس کر وصول کیا جاتا ہے۔سیاسی شعبدہ بازی کے میدان میں بڑے بڑے چند کھلاڑیوں کا قبضہ ہے۔ ان تمام شعبدہ بازوں کی خوبی یہ ہے کہ ان کا شعبدہ بازی کا نصاب ایک جیسا ہے۔جب یہ کھلاڑی شعبدہ بازی کے میدان میں اترتے ہیں تو عوام بیچارے اپنے آپ کو خوش رکھنے کی امید میں تماشہ دیکھنے جاتے ہیں۔لیکن یہ فیصلہ کرنے میں پریشانی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ کس کے اکھاڑے پر جائیں،کیونکہ تماشہ سب کا ایک جیسا ہے بس شکلیں مختلف ہوتی ہیں۔اس صورت میں عوام جائیں تو کدھر جائیں۔عوام کی اس کشمکش سے وہ شعبدہ باز جم غفیر کو اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو جاتا جو اپنے پر امید،فریبی اور جھوٹے تماشے کو لفظوں کی ہیر پھیر سے کچھ نیا کرنے کی شعبدہ بازی کرتا ہے۔مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ عوام بھی یہ شعبدے بازیاں دیکھ دیکھ ایک عادی تماش بین بن چکی ہے۔تماش بین اکثر چسکا پوائنٹس کا رخ کرتے ہیں جو ایل س ڈی کی صورت میں ہر گھر میں موجود ہے
،جس پر چوبیس گھنٹے مسالےدار سیاسی گفتگو کی دیگییں اور سیخیں پک رہی ہوتی ہیں جہاں پر چٹخارے دار سیاسی فاسٹ فوڈ کے بھوکے اپنی بھوک اینکری کباب اور تجزیاتی پلاؤ سے مٹاتے ہیں ۔لمحہ فکریہ کا وقت تو ہے لیکن پیدا ہونے کا نام نہی لیتا جس کی پیدائش رک جاۓ اس کا آپریشن ضروری ہے وگرنہ زچہ و بچہ دونوں کی جان کو خطرہ لاحق ہے ۔ان اموات کا ذمےدار کون ہو گا سیاسی شعبدہ باز یا سیاسی تماش بین۔ہمارا ضمیر یہ کام کر سکتا تھا لیکن فوت شدہ پر افسوس نہی کیا جا سکتا. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Comments